قرآن نے ہمیں صرف تعلق ختم کرنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ یہ بھی سکھایا کہ کیسے ختم کیا جائے —

“فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ”

اور

“سَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِیلًا”

یہ دو جملے دراصل اخلاقی اور روحانی معیار قائم کرتے ہیں —

کہ اگر تعلق برقرار نہ رکھا جا سکے تو جدا ہوتے وقت بھی انسان وہی نرمی، خیر اور وقار دکھائے جو مومن کے شایانِ شان ہے۔

آئیے سمجھتے ہیں “سَراحًا جَمیلا” اور “احسان” والا کردار عملی طور پر کیسے ادا کیا جائے:

🌸 1. الزام سے اجتناب کریں

قرآن نے جدائی میں سب سے پہلے بدگوئی کو ختم کیا۔

یعنی یہ نہ کہا جائے کہ “تم نے ایسا کیا” یا “قصور تمہارا ہے” —

بلکہ یوں کہا جائے:

“شاید ہم دونوں کا اندازِ سوچ مختلف ہے، بہتر یہی ہے کہ خیر کے ساتھ الگ ہو جائیں۔”

👉 یہ “احسان” کا رویہ ہے اپنی زبان اور لہجہ نرم رکھنا۔

🌿 2. شکریہ اور اعترافِ خوبی

“سَراحًا جَمیلا” کا مفہوم ہے خوبصورت رخصتی۔

یعنی رخصتی کے وقت دوسرے کی خوبیوں کا ذکر کرنا، اس کی کاوشوں کا شکریہ ادا کرنا۔

مثلاً:

“میں تمہارا شکر گزار ہوں کہ تم نے میرا ساتھ دیا، بہت کچھ سیکھا تم سے۔”

یہ جملہ دوسرے کے دل سے تلخی مٹا دیتا ہے۔

🌼 3. دعا کے ساتھ جدا ہونا

جدائی کے موقع پر سب سے طاقتور عمل دعا دینا ہے۔

“اللہ تمہارے لیے آسانیاں پیدا کرے، تمہیں عزت اور سکون دے۔”

ایسی دعائیں نہ صرف دوسرے کو نرم کرتی ہیں بلکہ انسان کے اپنے دل کو بھی روشن کرتی ہیں۔

🌺 4. خاموشی میں وقار رکھنا

کبھی “احسان” یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی صفائیاں نہ دے،

بس خاموشی سے الگ ہو جائے، اور کسی کی عزت کو زبان سے نہ چھیڑے۔

یہی سَراحًا جمیلا کا عملی رنگ ہے

خوبصورتی، نرمی، اور وقار کے ساتھ فاصلہ۔

🌹 5. دروازہ بند نہیں، دعا کھلی رکھنا

احسان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ رخصتی کے بعد بھی دل میں خیر باقی رہے:

“اگر کبھی ملاقات ہو جائے تو دل میں احترام ہی اُبھرے، شکایت نہیں۔”

یہ وہ روحانی طرز ہے جو رسولِ اکرم ﷺ کی سیرت میں دکھائی دیتا ہے۔

#MarketPullback $BTC